لوکل گورنمنٹ الیکشن اور ہمارا سیاسی کلچر

لوکل گورنمنٹ الیکشن اور ہمارا سیاسی کلچر

تحریر: دانش انور

کراچی اور حیدرآباد میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کا انعقاد 15 جنوری بروز اتوار کو ہونے جارہا ہے، باربارملتوی ہونے کے بعد آخرکاریہ انتخابات ہونے جارہے ہیں یہ ایک اچھی بات ہے،پھراس کے لئے اتوار کا دن چُننا گیااس پرکراچی والوں کومبارکباد دوں گا، کہ چھٹی والے دن یہ کام ہوجائے تواچھا ہے،اس سے ایک توووٹنگ ٹرن آئوٹ بہتر ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے، جس کا یقیناً مثبت اثر پڑے گا، یہ بھی اُمید کی جاسکتی ہے کہ معاملات بخیرو خوبی امن وامان کے ساتھ مکمل ہوجائیں گے۔

  انتخابات کا انعقاد کراچی شہرمیں ہمیشہ ایک مشکل کام رہا ہے، الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دن اورالیکشن کے بعد بہت سے معاملات ہوا کرتے ہیں، یہی معاملات اگر بہتر ہوں تواگلےالیکشن میں اس کا ووٹنگ ٹرن آئوٹ پر اچھا اثر پڑے گا، گو کہ کراچی کے حالات 80 اور90 کی دہائیوں سے بہت بہترہوگئے ہیں لیکن جیسے کہا جاتا ہے بہتری کی گنجائش ہمیشہ ہوا کرتی ہے۔ سوہے، ہم دیکھتے ہیں ملک میں سیاسی ہلچل کے ساتھ امن و امان کا برقرار رہنا نیک شگون ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ ماضی میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔ سیاسی نظریات ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے، الیکشن میں گہما گہمی ہورہی ہے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، لیکن یہ گرما گرمی میں نہ بدل جائے اس بات سے ہردل پریشان ہوجاتا ہے۔ آج میرااتفاق ہواکراچی کے ایک پرانے علاقے پاکستان چوک سے گزرنے کا تومجھے یہ دیکھ کرخوشی ہوئی کہ ایک ہی چورنگی پرمختلف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز آویزاں تھے، زندگی رواں دواں تھی، کسی کے چہرے پر پریشانی نہیں دیکھی، یاد آیا ایک وقت وہ بھی تھا جب اسی شہر میں جھنڈے لگانے پر سیاسی کارکنان میں تصادم ہوجایا کرتا تھا، پھر فائرنگ اورجلائو گھیرائومیں سیاسی کارکن اورعام راہگیرجان سےجاتے تھے، لیکن خدا کا شکر ہے وہ وقت گزرگیا، میں اس صورتحال کو قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں، لیکن سیاسی شعور کو بہتر کیسے کیا جائے یہ سوال ہے؟

طلباء تنظیموں پر 9فروی 1984 کے دن ایک آمرضیاء الحق کے حکم پابندی لگی، جوانتہائی غلط کام تھا اور سیاسی جماعتیں آج تک صرف طلبہ یونین کی بحالی کی بات کرتی ہیں، عمل کرتے ہوئے یا الیکشن جیتنے کے بعد کسی کو طلبہ یونین یاد نہیں آتی،جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں سیاسی کلچرفروغ نہیں پارہا، سیاست دان مختلف غیرسیاسی قوتوں جیسا کہ اسٹیبلشمنٹ، کارخانےداروں اورجاگیرداروں کے ہاتھوں کی چھڑی بن کررہ گئے، طلبہ تنظیموں کے حوالے سے بتانےوالے بتایاکرتے ہیں کہ صبح جو طلبہ ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کررہے ہوتے تھے وہی شام میں ایک ساتھ بیٹھ کر کسی چائے خانے پرچاَئے بھی پی رہے ہوتے تھے، سیاست دانوں میں عام آدمی مل جانا کچھ عجب نہیں ہوا کرتا تھا، بہتر کلچرفروغ پارہا تھا، جو آج ڈھونڈنے سےبھی نہیں ملتا، طلبہ تنظیمیں سیاسی جماعتوں کی نرسری ہوا کرتی تھیں، طالب علم بات کرنے کا ہنر، کام کرنے کا سلیقہ بھی وہیں سیکھ لیتے تھے،بعد میں بظاہر سیاسی تنظیموں پر پابندی لگ گئی اورطلبہ تنظیموں میں وہ لوگ آگئے جن کا علم کے حصول سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، پھرزیادہ بدامنی بڑھی اور نوجوان طبقے کی نمائندگی سیاسی جماعتوں سے ہٹ گئی، گویا نوجوان بے آواز ہوگئے، محض سیاسی کارکن ٹھرے جواجرتی قاتلوں، سرمایاداروں کی چالاکیوں ،اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا نشانہ بنتے رہے، سیاسی سوچ معاشرے سے گھٹتی چلی گئی۔ سرمایہ دارہیسیاست دان بن گئے، جواسمبلی میں آجاتے ہیں مراعتیں وصول کرتے ہیں اوروہ قوانین بناتے ہیں جن سے اپنا فائدہ یا اپنے طبقے کا فائدہ ہوتا ہے، چینی آٹا، سمنٹ بحران آنے کا سبب یہی سرمایہ دارسیاسی اکابرین ہیں، میڈیا اورپھرسوشل میڈیا کے آنے سے خلاء یقیناً کسی حد تک پُر ہوا، لیکن گنجائش وہاں بھی بہتری کی بہت ہے، میڈیا مالکان اورعام صحافی کا فرق بہت واضح ہے، اخباراورمیڈیا مالکان بھی سرمایہ دار کی طرح سوچتے ہیں، پریس کلب نہ ہوتے تو معاملات کتنے مزید خراب ہوسکتے تھے،بہرحال سوچ میں بہتری میں تجزیہ نگاروں، رپورٹرزنے اہم کردار نبھایا،شعور میں بہتری کی مثال ضرور ہے، سوشل میڈیا پر عام آدمی کی بات ہوتو ٹھیک ہے لیکن فیکا اکائونٹس کی وجہ سے کوالٹی پرسوال آجاتا ہے، سوال کرنا وہاں بعض دفع خطرے کو دعوت دینے جیسا ہوجاتا ہے۔ جس میں بدلائو لانا ہوگا۔

نوٹ: ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *