تحریر : دانش انور
بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں امن اس دورکوکہاجاتا ہےجوجنگوں کے درمیان پایاجاتا ہے، امن کو ترقی،خوشحالی اوریگانگت سے تعبیر کیا جاتا ہے، توجوتعریف امن کی ملی اس میں اصولاً 65 کی جنگ سے 71 کی جنگ تک امن ہونا چاہئے تھا، اگر ہوتا تو ترقی ہوتی،لیکن جو کچھ تھا وہ امن نہیں تھا، کچھ اور تھا،امن قبرستان کا سکوت نہیں ہوتا، لیکن زندگی جیسا متحرک ضرور ہوا کرتا ہے جس سے خوشحالی ضرورآتی ہے، ویسا کچھ نہیں ہوا، سوائے افسر شاہی کی بھڑک اور سیاسی ڈراموں کے، ان دونوں جنگوں کے درمیان،بنگلادیش ایک آزاد ملک ہے، ہم سے ہی آزاد ہوا، گزشتہ سال انھوں اکاونواں یوم آزادی منایا،ان کو مبارک ہو،خوشیوں اورآزادی پران کا بھی حق ہے،لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں اوروہ کہاں کھڑے ہیں، میں ذاتی طورپرنہیں جانتا کہ پاکستان سے بنگلا دیش کیوں بن گیا کیسے بن گیا، کیوں بنے دیا گیا، اورکیاواقع ہم یعنی مغربی پاکستان کے لوگ یہی چاہتے تھےکہ وہ الگ ہوجائیں، ثبوت اورشواہد تو غور کرنے کے لئے ہوتے ہیں، ہم ان کو نظر انداز کرجاتے ہیں ، میرے پاس کوئی ٹائم مشین نہیں، لیکن جب ترابی صاحب کی غزل ہمسفر سنتا ہوں تو یہ تو اندازہ ہوجاتا ہے بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی، میرا دل کچھ کٹ سے جاتا ہے، اورجیسا فیض احمد فیض فرماگئےکہ “کیا واقع خون کے دھبے برساتوں سےدھل جاتے ہیں” کون سے وہ بے مہردن تھے مہربان راتوں کے بعد آئے تھے،فیض ہوتے تو شاید پوچھ پاتا۔ خیر میرے پاس چند کتابیں، ایک کمیشن کی رپورٹ کے کچھ حصے ہیں، بہت سا دکھ ہےلیکن اسکے ساتھ بہت سی خوشی بھی خوشی اس کی کہ چلووہ آزاد ہوکرخوشحال ہیں، ہم کسی کوتزہیک کرنے کے لئے بنگالی بلاتے ہیں آج وہ ان کا ٹکہ بھی ہمارے روپے سے اچھا ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجی تھی، یا نہیں، میرے ملک میں آج تقسیم ہے لیفٹ ونگ والے لوگ، لبرز مجھے بتاتے ہیں کہ زیادتی ہم نے کی تھی، رائٹ ونگ والے کہتے ہیں کہ بھارت کا ہاتھ تھا،اورسابقہ فوجی کچھ اور تفصیلات فراہم کرتے ہیں، شایدہی کوئی واقعہ گزرا ہو تاریخِ پاکستان میں جس پ اتنی زیادہ کتابیں لکھی گئی ہوں،جیسے جتنے منہ اتننی باتیں۔
1947 میں پارٹیشن کے وقت میرے دادا مرحوم (جوغیرمنقسم ہندوستان میں ریلوے کےشعبے میں ریلوے گارڈ کی حیثیت سے وابستہ تھے) کو یہ آپشن دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان اورہندووستان میں سے کسی بھی ریاست کا انتخاب کرلیں، یہ انتخاب کا حق انکوبطورسرکاری ملازم ہو نے کی وجہ سے ملا تھا، دادا کی پہلی پوسٹنگ مشرقی پاکستان میں سیدپورمیں ہوئی تھی، میرے والد مرحوم بتایا کرتے تھےکہ دادا کھانے میں گندم کے آٹےکی روٹی کھایاکرتے تھےاور وہاں گندم کا آٹا اس وقت نہیں ملتا تھا، دادی مرحومہ چاول کے آٹے سے روٹی پکایا کر تی تھیں، کھانے کی روٹین میں یہ ایک بڑی تبدیلی تھی، پھرمشرقی پاکستان کےبجائےمغربی پاکستان میں ہمارے خاندان کے لوگ زیادہ آبادتھے۔ تو دادا نے کچھ عرصے مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دینے کے بعد اپنا تبادلہ مغربی پاکستان کروالیا۔ یہ تو میرے خاندان کا جوبطوررہائشی تعلق توختم ہو گیا، لیکن ظاہر ہے میرےوالد صاحب وہاں کے قصے کبھی کبھارسنایا کرتے تھے، ایک انسیت توڈیولپ ہوئی کہ کیسا ہوتا ہوگا سید پور، کیسا تھا ہمارا ڈھاکہ۔
نومبر1970 ء میں آنے والے بھولا نامی یہ طافون جس نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو،انکی معیشت کو تباہ کرگیا، اگر یہاں سے وہی جذبہ دکھایا جاتا جس کو ہم مغربی پاکستان میں 1965 کی جنگ کا جذبہ کہتے ہیں، تو شاید وہ نہ ہوتا تو ہوگیا، بھولا زندہ ہے جب تک جب تک دل نہیں جوڑے جاتے، انکہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد، جذباتی لوگوں کا جذبہ سرد ضرور پڑا تھا،جس نے دسمبر1970 ہونے والے انتخابات نے دسمبر 1970 میں رنگ دکھایا، مشرقی پاکستان کے دلوں پر ٹوٹا، بھٹو کے بیانات کی تلوار مغرب پاکستان کے انتخاب پر خوب چلی، لیکن اکثریتی مشرقی پاکستان میں وہ ہوا چلی جس سے مجیب کی نییا پار لگ گئی، فروری 1971 گنگا سازش سے عملی طور پر ہندوستان اس کھیل کا حصہ بن گیا، ہمارے دماغ کسی کام کہ رہے ہوتے توسوچتے قومی واحدت کا،ہمارے صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحٰیی خان فرمایا کرتے تھے کہ وہ بنگالیوں سے زیادہ بنگلا دیش کو جانتے ہیں، نیازی صاحب نے کسی کے بھی کہنے پر ہتھیار ڈالے لیکن ان کی کتاب کا نام مشرقی پاکستانی کی بے فائی(The Betrayal of East Pakistan) کیوں؟ اکثریت میں وہ تھے تسلیم نہ کر کے بے فائی تو ہمارے حصے میں آئی، یعنی ہم کہاں کے سچے تھے۔
مشرقی پاکستان کے ساتھ جو ظلم ہوا، اس کا ثمر آزادی کی صورت میں انکومل گیا، وہ حق دار تھے، لیکن جو آج تک وہ پاکستانی جو کیمپوں میں ٹھرے ہیں، وہ سوائے اللہ کے کس سے اپنا دکھ کہیں؟ ایک طرف اسرائیل جو ناجائز ہوتے ہوئے دنیا بھر کے یہودیوں کے لئے اپنے اور فلسطینی علاقوں پر کالونیاں بنا رہا، ایک طرف ہم جو اپنوں کو گلے لگانے کے بھی روادار نہیں۔ ہم ظالم بھی ہوئے۔
1971 کی جنگ میں ہمیں نقصان ہوا، لیکن آج ہم اس موضوع سے جیسے آنکھ چراتے ہیں، تاریخ میں بہت بڑی شکست یقیناً تھی، انکار ممکن نہیں، لیکن اس کے بارے میں نا جاننے کی خواہش کچھ اس طرح کی ہے جیسے اپنے کسی مرحوم کو کھودینے کےبعد خاموشی اختیارکرلی گئی ہو، شکست کیا لاتعلقی کا دوسرا نام ہے، میرا دل تڑپتا ہے کیوں شکست کو ایک شکست سے زیادہ تصورکیا جاتاہے، جنگ میں بھی جیت اور ہاردونوں ہوتی ہیں،اورہارہماری ہوئی توکیا اب ہم اپنی ہار کا جائزہ نہیں لینا چاہیے، لیکن یہاں ہمارا رویہ کچھ اس قسم کا ہے جیسے اندرون سندھ کارو کاری کی رسم کا ذکر ہو، جیسے کاروکاری ہونے والوں کی نمازجنازہ نہیں پڑھائی جاتی ہو،جیسے ان کو کبھی اچھے الفاظ میں سب کے سامنے یاد کرنا منع ہو، ذکر ممنوع ہو،پھر کہوں گا میرے پاس صرف چند کتابیں ہیں،ایک ادھوری کمیشن رپورٹ، کچھ اخباری بیانات ہیں، لیکن میں پھر بھی کوشش کروں گا کہ جو میرے جیسے نا تجربہ کار کم علم آدمی کچھ تجزیہ کروں، اس لئے ہر گز نہیں کہ میں بہت کچھ جانتا ہوں، صرف اس لئے کے یہ دکھ مجھے بطور پاکستانی ہے،شکستوں سے سیکھا بھی جاتا ہے،غلطیاں دہرانے سے کیا فائدہ، لیکن اس کے لئے غلطیوں کو غلطی تسلیم کرنا بھی ضرور ہوگا- اگر دکھ ہم نے نہیں بھارت کی وجہ سے آئے تو بنگلادیش نہ بنتا، جیسے مشرقی اور مغربی جرمنی دیوار برلن کے بعد پھر متحد ہوگئے تھے- تو پہلے جان لیں کہ زیادتی کی ابتداء یہاں سے ہوئی۔ سوچیں ہم جنگ جی
ت بھی جاتے تو کیا ہم تو بھائی بھائی جیسے ہی ہوتے-
نوٹ: ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں
1 Comment